web 2.0

درگاہِ جاتی عمرہ

ملفوظاتِ شریفِ مکہ

از: حکیم حاذق

تعاون بشکریہ،

ذوالنّون مصری

[ترجمانِ خصوصی، مسلم لیگ نون]

لاہور کی خاکِ پاک عرشِ منور کے برابر ہے۔ بیسیوں بزرگانِ عالیشان اس خاک میں آسودہ ہیں۔ حضرت شریف الاشراف، گیسو دراز اسی ارضِ مقدس کے فرزندِ ارجمند ہیں۔ حضرتِ ایزدی کی یہ ہم سب پر بے بہا نوازش ہے۔

ہو حلقہِ یاراں تو بریشم کی طرح نرم

رزمِ حق و باطل ہوتو فولاد ہے مومن

اس مردِ آہن نے گہوارہِ امن و انصاف، منبعِ شریعت و طریقت، مصنعِ اتفاق و اتحاد میں آنکھ کھولی۔ ایام طفولیت ہی میں قادریہ جیلانیہ سلسلے کے مشہور بزرگ غلام جیلانی خان کی نگاہِ گوہر شناس نے اس درّ ثمین کو خدمتِ دین کے لیے منتخب کیا۔ ان بزرگ کے ارضِ پنجاب پر بے بہا احسانات ہیں۔  آپ علوم متداولہ، سرّیہ و علانیہ میں کمال رکھتے تھے۔ آپ ہی کے دستِ آہن سے اس سرزمین میں فسق و فجور، فتنے اور بغاوت کا خاتمہ ہوا۔

جگہ جگہ صوفیا کے حلقے، تکیے اور زاویے قائم تھے جنہیں ایم ایل اے ہیڈ کوارٹر کہا جاتا تھا۔  کیف و سرور اور جذب و حضور کی ان محافل میں تمرد اور نفاق کا سدّ باب بسبیلِ ذکر و فکر و وعظ و تلقین کیا جاتا تھا ۔ جن کم نصیبوں پر یہ نوازشات بے اثر ہوں انہیں مفت تعلیمی دوروں کے لیے شاہی قلعہ جات لاہور و اٹک و دائرہِ کوٹ لکھپت روانہ کیا جاتا۔ بے شمار سائلین نے آپ کے ہاتھوں ہدایت پائی۔ ایسوں کا بھی شمار مشکل ہے جو ان مجاہدوں کی تاب نہ لاتے ہوے جاں بحق تسلیم ہوے۔

خدا رحمت کند این عاشقانِ پاک طینت را

علومِ ظاہری اور باطنی کی تعلیم اعلیٰ حضرت نے اسی مکتبہِ جیلانیہ میں حاصل کی۔ فارغ التحصیل ہوتے ہی پنجاب کی ولایت آپ کے سپرد کی گئی۔

 جلد ہی وہ کفر اور اسلام کا وہ معرکہ آن پہنچا جس کا کہ سب اہلِ ایمان کو انتظار تھا۔ صوفیا کے تذکروں میں یہ معرکہِ گُرگانِ نیم شبی کے  نام سے جانا جاتا ہے۔ مشہور صوفی بزرگ حضرت گربہِ نیک نہاد، شب زندہ دار کہ شریعت و طریقت میں امتیازی دستگاہ رکھتے تھے، آپ کے نیاز کیش تھے۔ مزید برآں، کیشِ نقد تک بھی رسائی تھی، جسے رہروانِ راہِ طریقت میں بلاامتیاز اور بے دریغ تقسیم کرتے تھے۔ اس جوئے سخاوت کا منبع حضرت اسلم بیگ صاحب میرزا تھے جو کہ اہلِ طریقت میں سلسہ بہاولپوریہ کے بانی سمجھے جاتے ہیں۔

اے کبکِ خوش خرام کجا می روی بناز

غرہ مشو کہ گربہِ عابد نماز کرد

حضرت خالد خواجہ چشتی اجمیری  اولیائے لاہور کے باب میں روایت کرتے ہیں کہ اسی دور میں اعلیٰحضرت کی ملاقات امت کے بطلِ جلیل، الشیخ اسامہ بن لادن سے ہوئی۔ آپ نے ازراہِ نیازمندی، پانچ کروڑ ڈالر بطور نذر پیش کیے، جن کا استعمال تزکیہِ نفس، بالیدگیِ روح اور مملکتِ خداداد کا قبلہ درست کرنے کے لیے وقف کیا گیا۔ 

یہ دور مملکتِ خداداد کے لیے ایک آزمائش اور ابتلا کا  دور تھا۔  راہزنوں کو راہنمائی کا دعویٰ تھا۔ قیادت ان لوگوں کے ہاتھ میں تھی جو امت کی سلامتی کے لیے خطرہ تھے۔ اور محض اس زعم میں تخت و تاج کو اپنا حق سمجھتے تھے کہ عوام کالانعام نے ان کو ووٹ کے ذریعے منتخب کیا تھا۔ یہ غرور جلد ہی خاک میں مل گیا اور مسندِ امارت پر بالآخر اعلی حضرت جلوہ افروز ہوئے۔

گریز از طرزِ جمہوری، غلامِ پختہ کاری شو

کہ از مغزِ دو صد خر عقلِ انسانی نمی آید

آپ کے دورِ ولایت میں بہت سے فتنوں نے سر اٹھایا۔ آپ نے کمال ہمت اور پامردی سے فتنہِ سجاد علی شاہ کا قلع قمع کیا یہ شخص اسلام آباد میں الحاد و نفاق کی سرپرستی کر رہا تھا۔  مکتبہِ جنگ کو کہ کذب و افترا پر آمادہ تھا، چند آزاد منش، سرفروشوں کے ہاتھوں امن کا پیغام دیا۔ نجم سیٹھی کو، جو کہ اخبار نویسوں میں شورش پھیلانے پر مُصر تھا، پنجاب پولیس کے حلقہ بگوشوں نے دعوتِ ارشاد و اصلاح دی۔

ایک دن ایسا آیا کہ کوہِ چاغی، طورِ سینا کی طرح  تجلیِ حق سے منور ہوا۔ امتِ مسلمہ کے لیے یہ ایسا ہی موقع تھا جیسے دیبل میں حضرت محمد بن قاسم کا ورودِ مسعود یا جبل الطارق پر ابنائے اسلام کا قدومِ مبارک لزوم۔

ہر لحظہ نیا طور نئی برقِ تجلی

اللہ کرے مرحلہِ شوق نہ ہو طے

پوری امت نے آپ کے اس تاریخ ساز فیصلے پر دامے، درمے اور سخنے لبیک کہا۔ سب اہلِ ایمان کے دام و درم، ڈالر و سٹرلنگ، بحقِ امت وبحقِ طُورِ چاغی، داخلِ بیت المال کیے گئے۔  اور احباب کے درجات دنیا و مابعد میں بلند کیے گئے۔

فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں

موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں

وہ بجلی جو کوہِ چاغی پر نظر آئی تھی، یکا یک کوہِ کارگِل پر کوند گئی۔ اس معرکے کے سب سے نامور شہید خود حضرت گیسو دراز تھے، جو کہ بہت جلد راہیِ ملکِ عرب ہوئے۔ خادمِ حرمین شریفین کا دل شاد اور سرورمحل آباد کیا۔ اسی دوران دیارِ فرنگ میں تکیہِ پارک لین میں اسلام کی شمع روشن کی ۔

 ۱۰ ستمبر۲۰۰۷ کو اعلی حضرت، بزریعہ رہوارِ ہوا پیما، دولتِ ایمانی سے مالا مال، جذبہِ شہادت سےسرشار، سر بکفن، جیبی کنگھی در جیب، اسلام آباد تشریف لائے۔ اہلِ اسلام آباد، اسلام سے دور اور ایمان سے غافل تھے، اور اہلِ کوفہ کی تمثال تھے۔ طاغوتی قوتوں نے آپ کو کوئے یار میں ایک لمحہ بھی رکنے نہ دیا اور آپ ایک بار پِھر حضرت بیرم خان کی سنت میں جبری حج پر روانہ ہوئے۔

دل بدست آور کہ حجِ اکبر است

از ہزاراں کعبہ یک دل بہتر است

بالآخر غیرتِ الٰہی جوش میں آئی، اور ۲۵ نومبر کو آپ ارضِ پاکِ ماڈل ٹائون میں ایک بار پھر جلوہ افروز ہوئے۔ اور سجادہِ اولیا پر متمکن ہوئے۔

آ ملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک

برگِ گُل کی ہم نفس بادِ صبا ہو جائے گی

آپ کی درگاہ آج کل جاتی عمرہ میں مرجعِ خلائق ہے۔ چہار دانگِ عالم سے بندگانِ خدا جوق در جوق آتے ہیں اور دل کی مرادیں پاتے ہیں۔ عنقریب مملکتِ خداداد پر آپ کی ولایت پھر قائم ہو گی اور مریدانِ باصفا کی آرزوئے وصالِ حقیقت پوری ہو گی۔ حصولِ قطعہِ زمین در ناحیہِ دفاعی، پروانہِ کارخانہِ شکر و سیمنٹ، پروانہِ راہداریِ ویگن و بس پھر میسر ہو گا۔  تعیناتی بر منصبِ ڈی ایم جی بسبیلِ دخولِ جانبی، عنایتِ بنک ہائے سرکاری برمریدان، عطائے کارخانہِ فولادی بر رفیقان، شست و شوئے مالِ نقدِ سیاہ، [پوشیدہ از چشمِ ہوسناکِ سپاہ] پھر جاری و ساری ہو گی۔

یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر

اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر

مر�� قافلے میں لٹا دے اسے

لٹا دے ٹھکانے لگا دے اسے

More articles by Hakim Hazik

 

 

 

 

Tags:

Add comment