web 2.0

خطوطِ غالب جدید

از: حکیم حاذق

منشی ہر گوپال تفتہ کے نام

کاشانہِ دل کے ماہِ دو ہفتہ، منشی ہر گوپال تفتہ،

جنابِ من، جنابِ باری کے حکم کے مطابق فقیرِ عاجز باغِ رضواں سے روانہ ہوا اور بسبیلِ جہازِ خلائی و ہوائی واردِ ہندوستان ہوا۔ فرودگاہِ پالم میں نزول کیا۔ لیکن صاحب یہ وہ دہلی نہیں جس میں عمرِ عزیز تمام کی تھی۔ جہاں پر ریختہ کی استادی میں نام پیدا کیا۔ جہان فارسی میں شعر ہائے رنگ رنگ کہے۔ جہاں پرشاہِ دیندارِ تیموری اور جہاندارِ نیکوکار انگریزی کے قصیدے لکھے۔ جہاں پر تم جیسے احباب کے ساتھ تعلقِ خاطر تھا۔ مسلمانوں میں جو ذوقِ علم رکھتے تھے، کب کے ملک بدر ہو چکے۔ جو باقی بچے وہ متاعِ اردو سے ہاتھ دھو چکے۔ صاحبانِ عالیشان انگریزی کب کے جاہ و جلالِ مُلک و حکومت کھو چکے۔ ہندوستانِ فلک نشان کے حصے بخرے ہو چکے۔

اس طرح کے وصال سے یارب

کیا مٹے دل سے داغ ہجراں کا

نوشتہ کاتبِ تقدیر کا یہی سمجھ میں آیا کہ وطنِ مالوفِ دہلی کو خیر باد کہا جائے اورلاہور میں سکونت کی جائے کہ عرش منور کے برابر بتایا گیا ہے۔ مزید براں سنا ہے کہ دہلی کی تمثال ہے۔ ناچار فقیرِ پُر تقصیر بسبیلِ ریلِ سمجھوتہ میل واردِ لاہور ہوا۔ یہاں پر حکیم حاذق صاحب کے مکان میں اترا ہوں، کہ نہایت وضع دار اور ملنسار بزرگ ہیں اور اہلِ علم کی خدمت پر کمر بستہ ہیں۔ خود بھی اساتذہ کے کلام سے دلبستگی رکھتے ہیں۔ آج کل ملفوظاتِ صوفیائے جدید کی تالیف کر رہے ہیں۔ مشہور بزرگ گربہِ ملت سے ملاقات رہی۔ خاکسار نے جب اپنا جب اپنا آبائی پیشہ سپہ گری اور وطن بلی ماراں بتایا تو قدرے آشفتہ خاطر دکھائی دیے۔ پرودگار سب بزرگانِ پاک طینت کو فقیر کی طرف سے جمعیتِ خاطر دے اور اس ناچیز کی دلجوئی کرے کہ بر خود رنجور اور از وطن مہجور ہے ۔ آمین۔

بارے ارادہ ہوا کہ ریزیڈنٹ صاحب اور گورنر جنرل صاحب بہادر کی شان میں قصیدہ لکھا جائے کہ سامان کچھ معاش کا ہو اور دربارِ عالیہ سے پنسن کی بحالی اور قرض کے رفع کی کوئی صورت بنے۔

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں

رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

حکمِ انگریزی سرکار و کمپنی تو کب کا معدوم ہو چکا۔ اب سکہ اور خطبہ شاہِ امریکی کا چلتا ہے۔ سب علما اور فقہا اسی کا دم بھرتے ہیں۔ صدرالصدور اور قاضی القضاۃ  اسی کے دست نگر ہیں۔  ایک قصیدہ برائن ڈی ہنٹ صاحب بہادر کی شان میں لکھا کہ لاہور میں کنسل خانے کا مختار اور سکندر کے ہم پلہ ہے۔ اخلاق و آداب سے خاندانی جاہ و نسب ظاہر ہوتا ہے۔ تنومندی البتہ خاندانی شرافت کے بر عکس ہے۔

ایک اور قصیدہ گورنر جنرل بہادر این پیٹرسن صاحبہ کی نظر کیا۔ نہایت نرم گفتار اور خوش رفتار خاتون ہیں۔ تمام خدمت گاروں اور کارپردازانِ حکومت و سپاہ سے خوش خلقی اور انکساری سے پیش آتی ہیں اس لیے گالیاں اور گولیاں کھا کر بے مزہ نہیں ہوتے۔ آپ نے کمال مہر و مودت سے خلعتِ زردوز و زر بفت، پچیس پارچہ جات کی، بتقریبِ عرسِ شیخانِ کیری و لُوگرعنایت کی۔

تم سلامت رہو ہزار برس

ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار

شاہانِ تیموری کہ ایک زمانے میں آسمانِ سلطنت کے مہرِ درخشاں تھے اب قصہِ پارینہ ہیں۔ خود شاہِ عالم رنگون میں پیوندِ خاک ہیں۔ قلعہِ معلیٰ واقع اسلام آباد میں اب سلاطینِ نواب شاہی کا دور دورہ ہے لیکن سچ پوچھو تو اب بھی شاہانِ کیانی کا دستور موثر ہے اور دیگر دساتیر اور قوانین غیر موثر ہیں۔ اس دستور کو جرنیلی بندوبست بھی کہتے ہیں  چشم نمائی اور  تکرار کرنے والوں کا دوامی بندوبست کیا جاتا ہے۔ جو کہ آج کل کے دور میں اکثر بعبورِ دریائے کیریبین، زیرِ سر پرستیِ صاحبانِ عالی شانِ امریکان ہوتا ہے۔  

ولی عہدِ سلطنت فرنگستان میں امورِ جہانداری اور جہانگیری کی تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ عنقریب تخت نشین ہو گا۔ خلقت مرفہ الحال اور حاجبِ خزانہِ شاہی دلشاد ہو گا۔ فقرا کے لیے عمومی دسترخوان ہو گا۔ شہر جنیوا میں لنگر جاری و ساری ہو گا۔ سرّے میں آباد قصرِ شاہی ہو گا۔ کھاتہ بنکی نمبری دور از ساحل، جزیرہِ آدم میں ہو گا۔ اندراجِ کمپنیِ نقلی برائے اخفائے مالِ اصلی، جزیرہِ جرسی میں ہو گا۔

یہاں تک  لکھا تھا کہ ڈاک کا ہرکارہ آیا اور ایک توشہ اس نوشینہِ جاں فزا کا لایا کہ ہمارے مذہب میں حرام اور تمہارے مشرب میں حلال ہے۔ کہنے لگا کہ محمد سلمان صاحب کی طرف سے تحفہ ہے۔ یہ مردِ عالی مرتبت خلف الرشید  محمد دین صاحب کا ہے اوران ہی کی طرح تاثیر تخلص کرتا ہے۔ ایک زمانے میں دکن کے مشہور شاعر مشرف سے اصلاح لیتا تھا۔ آج کل پیروکار مکتبِ نواب شاہی کا ہے۔ اللہ اس کے درجات بلند کرے۔ جرعہ جرعہ پیتا ہوں اور اس کو دعا دیتا ہوں۔ اپنی نیم مسلمانی پر کاربند ہوں۔

ہے ہوا میں شراب کی تاثیر

بادہ نوشی ہے باد پیمائی

اس شہر میں جناب شریف الاشراف گیسو دراز کے قول کو قبولِ عام کی سند حاصل ہے۔ آئینی مباحث میں درجہِ اولیٰ اور یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔ ۱۹۹۹ میں حکومت و سلطنت سے جی اٹھ گیا۔ دنیا سے دست کش ہوئے اور عقبیٰ کی فکر دامن گیر ہوئی۔ حجازِ مقدس میں گوشہ نشین ہوئے۔ چندے مدت وہاں گزاری لیکن پھر مریدانِ پاک کی آہ و زاری کارگر ہوئی اورآپ نے دوبارہ اس شہرِ بے مثال کو اپنے وجودِ اقبال و سعادت نشان سے مقبول و مسعود کیا۔ دولتِ دلخواہ کی طرح ناگاہ آئے اور خلائق و عوام کو شادمان کیا۔

آج کل خبر گرم ہے کہ نیا آئین جاری ہونے کو ہے۔ دیکھنے ہم بھی گئے پر وہ تماشا نہ ہوا۔ سنا ہے کہ حضرت گیسو دراز، دستورِ شاہانِ کیانی کی طرف مائل ہیں۔ تم نے نواب مرزا کا نام شاید سنا ہو کہ داغ تخلص کرتا ہے اور اچھے شعرکہتا ہے۔ اس کی زبانی کہتا ہوں:

عذر آنے میں بھی ہے اور بلاتے بھی نہیں

باعثِ ترکِ ملاقات بتاتے بھی نہیں

خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں

صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں

دیکھو یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

فقیرِ گوشہ نشین، واجب الرحم، بے گناہِ محض،

غالب

More articles by Hakim Hazik

 

 

 

 

 

Tags:

Add comment