web 2.0

تعویذ دافع بلیات

تعویذ دافع بلیات

المعروف بہ

ملفوظاتِ گُربہِ ملّت

[تمغہِ امتیاز،ستارہِ بسالت]

از: حکیم حاذق

حضرت گربہِ ملت، قطّہِ امت، خانوادہِ مخابراتیہ کے ایک جلیل القدر بزرگ ہو گزرے ہیں۔ سلسلہ مخابراتیہ بین السروِسیہ، [حساسیہ] میں آپ کو امام العصر تسلیم کیا جاتا ہے۔ اہلِ دائرۃُ المعارف، المعروف بہ آئی بی، آپ کی تعظیم و تکریم میں غلو کرتے ہیں اور بسا اوقات احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں۔

 اسلام آباد کی گدی سے کفر اور زندقہ کے اندھیرے دور کرنے میں آپ کا اور میجر محمد بن عامر ثقفی  کا بڑا ہاتھ ہے جو آپ کے ارادت مندوں میں اول بین المتساوین کا درجہ رکھتے ہیں اور خود بھی صاحبِ کرامات مانے جاتے ہیں۔ آپ دونوں حضرات سے محیر العقول کرشمے منسوب کیے جاتے ہیں، جو باعثِ تشویق و تحیرِ اہلِ سلوک ہیں۔ آپ  کے کرشمات کے معترفین رئوسا اور ملوک ہیں۔

ز فرق تا قدمت ہر کجا کہ می بینم

کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا اینجاست

آپ کے پیر و مرشد حضرت حمید گُل صاحب جلال آبادی تھے جو ہندو کش میں قطب الاقطاب مانے جاتے ہیں۔ آپ ہی کی جانفشانی سے اس مملکتِ محروسہ میں اشتراکیت، اجتماعیت، الحاد اور ارتداد کا خاتمہ ہوا اور حضرت حکمت یارِ دین دار تخت نشین ہوئے جو اپنی وسیع المشربی اور حلم الطبع کی بدولت اج بھی عوام اور خواص میں ہر دلعزیز ہیں۔

آن فقر کہ بے تیغی صد کشورِ دل گیرد

از شوکتِ دارا بہ، از فرّ فریدون بہ

آپ نے راہِ سلوک کی پُر خار وادی میں ۱۹۷۸ میں قدم رکھا۔ اس پُر آشوب دور میں ملتِ اسلامیہ پر خطرات کے اندھیرے بادل منڈلا رہے تھے۔ اشتراکیت نے اپنا دامِ فریب پھیلا رکھا تھا۔ نذیر عباسی جیسے سادہ لوح لوگ اس زلفِ گرہ گیر کے اسیر ہو چکے تھے۔ اس موقع پر نظارہ ِجمال سے کہیں زیادہ کیفیتِ جلال کی ضرورت تھی، اور تالیفِ قلوب سے زیادہ عزمِ آہنی درکار تھا۔ اس میں شک نہیں کہ نذیر عباسی آپ کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچا۔ لیکن یہ ان غیر معمولی حالات کا تقاضا تھا۔ ذاتی طور پر حضرتِ گُربہ نہایت حلیم الطبع اور رقیق القلب واقع ہوئے تھے اور جدال و قتال سے پرہیزکرتے تھے۔

بسطامی العصر، حضرت محمد ضیاالحق سریر آرائے مملکتِ خداداد تھے۔ آپ مرکز کو مضبوط کرنے اور مرکزے کو توڑنے کے حامی تھے۔علمائے امریکان کا اس امر پر فقہی اختلاف تھا، اگرچہ آپ خود بھی شریعتِ امریکی پر کاربند تھے اور خونِ افغان کو مباح سمجھتے تھے ۔  خونِ سندھ کے دلدادہ تھے اور اسے بطیبِ خاطر، مفرح القلب کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ مسہل کے لیے اوجھڑی کیمپ کا استعمال کرتے تھے۔

اس بات پر متقدمین کا اتفاق ہے کہ مقاماتِ سلوک کی تحصیل زورِ بازو پر نہیں بلکہ توفیقِ خداوندی پر منحصر ہے۔

این سعادت بزورِ بازو نیست

تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

ایک دن آپ نے ایک مزدائے سرخ کو برفتارِ برق، خانقاہِ کنسلیہ،امریکیہ میں نزول کرتے دیکھا۔ اس رویائے صادقہ کے نتیجہ میں آپ بہت سے گدڑی پوش درویشوں کو شہر کے نواحی و ضواحی میں تعینات کیا۔ کچھ دشمنانِ اسلام کا دعویٰ ہے کہ اس وقت حضرت عرقِ سکاٹ لینڈی کے زیرِ اثر تھے۔ کچھ حاسد یہ بھی کہتے پائے گئے ہیں کہ نباتِ افغانی حضرت کے تصرف میں تھی۔

نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

اس عرق ریزی کے نتیجے میں رفیق منشی کیفرِ کردار تک پہنچا۔ اگرچہ آخرِ کار جنابِ اولوالامر، جناب ضیا الحق صاحب جنت مکانی، خلد آشیانی نے کمالِ عفو سے کام لیتے ہوئے اسے مصلحتِ قومی کے تحت رہا کیا، سزائے موت سے بری کیا اور فدیہ بیت المال میں داخل کیا۔ اس طرح آپ نے اس عفیفہِ دل باختہ و فاترالعقل کی دلجوئی کی جو اس مارِ آستین کے ہاتھوں دل گرفتہ تھی۔ لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کے جذبہِ جانفروشی کی بدولت آج پاکستان بطور ایک قوتِ نیوکلیائی [مع عُمقِ سٹریٹجیائی] دنیا کے نقشے پر قائم و دائم ہے۔

در دشتِ جنونِ من جبریل زبوں صیدی

یزداں بکمند آور اے ہمتِ مردانہ

اس موقع پر قوم کے مربی اور محسن حضرت یونس حبیب صاحب کا ذکر بے جا نہ ہو گا۔ یہ منبعِ جود و سخا اور پیکرِ مہر و وفا مہران بنک کا خازن اور کلید بردار تھا۔ لیکن خدمتِ دین میں بازی لینے کے لیے ہر وقت مستعد تھا۔ حضرتِ گُربہ سے مودت اور محبت کا رشتہ تھا۔

آپ کے حکم پر ان درویشوں میں اربوں روپے تقسیم کیے جن کے لیے مال و زر، حکومت و سیاست کی اہمیت پرِکاہ سے زیادہ نہ تھی اور جن کا دامن سب دنیاوی آلائشوں سے پاک تھا۔ ان میں دائم الصیام اور قائم الیال بزرگ حضرت شریفِ مکہ، عابدہِ شب زندہ دار، محترمہ عابدہ حسین اور طوطیِ شیرین مقال، شیرین مزاری صاحبہ بھی شامل ہیں۔ بے غرض اس قدر تھے کہ جب اس توکل اور دریا دلی کے نتیجے میں بنک مذکور دیوالیہ ہوا تو قاضیِ نیب کے اشارہِ ابرو پر ایک ارب روپیہ رائج الوقت بیت المال میں جیبِ خاص سے داخل کیا اور پابندیِ سلاسل سے آزاد ہوئے۔ جملہ اہلِ طریقت کے دل شاد ہوئے۔ خانقاہیں پر رونق اور زاویے آباد ہوئے۔

صوفیانِ سلف میں رواج ہے کہ وقتاً فوقتاً خرقہِ ملامت زیبِ تن کیا کرتے ہیں۔  حضرتِ گُربہ اور میجر عامر صاحب، قطمیرِ ملت نے گیدڑانِ نیم شب کے نام سے ایک معرکہ ترتیب دیا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ عمائدینِ سلطنت کو ایک کروڑ روپیہ،  بشکل سکہِ طلا رائج الوقت در کیسہِ چرمی بوقتِ شبانگاہی پیش کیا گیا، تاکہ باطل اور عورت کی حکمرانی سے تائب ہوں اور سچ اور حضرت شریف الاشراف، والیِ پنجاب کی درگاہِ پُر تقدیس پر سر بسجود ہوں۔ مطلوب اس کارگذاری سے محض وصالِ حقیقت اور کشفِ اسرارِ محبوب تھا۔ طمع یا حرص کا ان عملیات میں ہرگز دخل نہ تھا۔

شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن

نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی

اسلام آباد میں حضرتِ گربہ کی ملکیت میں ستائیس قطعہ ہائے اراضی موجود ہیں۔ جو اعلیٰ حضرت کی دور اندیشی اور پیش بندی کا ثبوت ہیں۔ عنقریب آپ کو ان اراضی پرجگہ جگہ چبوترے، قبہ جات اور تکیے دیکھنے کو ملیں گے جو کہ رہروانِ طریقت کا مستقر ہوں گے۔ ان میں سے کچھ میں درویشانِ آبِ سیاہ کاجلوس ہو گا اور کچھ میں قلندرانِ سفارتِ صالحہ یانکیہ کا وقوف ہو گا۔ دنیا میں اجارہ اور آخرت میں اجر وصول ہو گا۔ بارگاہِ ایزدی میں نیک نیتی اور تزکیہِ قلبی کو قبول ہو گا۔

عجب نہیں کہ مسلماں کو پھر عطا کر دیں

شکوہِ سنجر و فقرِ جنید و بسطامی

Tags:

Add comment