خط بنام برادر عبداللہ
از: حکیم حاذق
خادمِ حرمین شریفین، جلالۃ الملک،عزت مآب، برادرِ محترم جناب ملک عبداللہ صاحب،
اپنے عاصی و گنہ گار بھائی کی طرف سے سلامِ عقیدت قبول کیجیے۔ میں اور آپ کی بھابی یہاں خیریت سے ہیں اور آپ کی صحت کے لیے ہمیشہ دعا گو ہیں۔ شہباز صاحب بھی خیریت سے ہیں اور محبی فیلڈ مارشل کیانی صاحب سے اپنے اہم اعضاء واگذار کروانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خدائے بزرگ و برتر انہیں اپنے نیک مقاصد میں کامیاب کرے اور انہیں اپنی نیک نیتی پر اجر دے۔ آمین
بنی آدم اعضاءِ یک دیگر اند
کہ درآفرینش ز یک گوہر اند
برادرِ محترم،
یہ آپ اور برادرم کلنٹن جیسے برادرانِ اسلام ہی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ خاکسار کا سر اب بھی اس کے بدن سے منسلک ہے اور وہ اور آپ کی بھابی جاتی عمرہ کی اس کٹیا میں عافیت کوش ہیں ۔ میرے اور آپ کی بھابی کے لیے وہ ایام ناقابل فراموش ہیں جو آپ کے قدموں میں گزارے۔ خاکسار آپ کے پیروں کی خاک کو اپنے لیے متاعِ دنیا و عقبیٰ سمجھتا ہے اور آپ کے پیروں کی سوجن میں کمی کے لیے رات دن دعا کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ سب مسلمین اور مسلمات کو ذیابیطس، بلند فشارِ خون، اضافہِ کولیسٹرول، آزادیِ نسواں اور خاتون ڈرائیوروں سے محفوظ رکھے اور مملکۃ عربیہ نفتیہ سعودیہ کے انوارِ روحانی اور ذخائرِ معدنی میں اضافہ کرے۔
عزت مآب،
یہ آپ اور برادرم اوباما جیسے برادرانِ اسلام کے قدموں کے طفیل ہے کہ آپ کے بھائی کو بیت اللہ شریف کی زیارت نصیب ہوئی اور بیت اللہ محسود کو جنت نصیب ہوئی۔ تاہم میں اور شہباز شریف ڈیفنس شریف اور آر اے بازار شریف میں فدائی کاروائیوں کے خلاف ہیں۔ ہم پختونخواہ میں فدائی کاروائیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم پختونخواہ کی مخالفت کرتے ہیں۔ ہم اباسین کی حمایت کرتے ہیں اور ابا جی کا حکم مانتے ہیں۔ ہم کنڈا شریف کی حمایت کرتے ہیں۔
مملکتِ خداداد کے لیے آپ کا وجود مبارک ہے۔ آپ ہی کے دم قدم سے ملک کے چپے چپے میں علمی مدارس کی شمع روشن ہے جہاں پر نوخیزاور پر جوش طلبا کو وفاق المداراس سے رجسٹر شدہ جید اساتذہ، کفار کو ذبح کرنے کے جدید طریقوں کی تعلیم دیتے ہیں۔ مزید برآں مسائلِ غسل، طوالتِ ریش، رفعِ یدین اور آمین بالجہر جیسے دقیق مسائل پر بھی ڈاکٹری مقالے لکھے جاتے ہیں۔
عنقریب ملک کے اربابِ بست و کشاد میں معروف عبادات و مناسک کا دور دورہ ہو گا۔ منکرات کا خاتمہ ہو گا۔ کفر، زندقہ، الحاد، ارتداد، دہریت، بدعت، رافضیت، لادینیت اور اشتراکیت نیست و نابود ہوں گے۔ ملک میں صنعت و حرفت کو ترقی ہو گی۔ جگہ جگہ پوشاکِ جنت یعنی فدائی جیکٹ بنانے کے کارخانے ہوں گے جس میں بال بیرنگ اور نٹ بولٹ اتفاق کے استعمال ہوں گے۔ دنیا اور آخرت میں اجر ملے گا۔ ہم خرما و ہم ثواب ہو گا۔
مملکۃِ نفتیہ کا مملکتِ خداداد اور عالمِ اسلام کو کو سب سے بڑا تحفہ الشیخ علامہ اسامہ بن لادن ہیں۔ جو اپنے علم، زہد اور تقویٰ کے باعث ہر دل عزیز ہیں۔ آپ اپنی ذاتی نگرانی میں نوجوانانِ قوم کو حلم، بردباری اور رواداری کی تعلیم دیتے ہیں۔ الحمد للہ آپ کا پیغام�� محبت و اخوت دنیا کے ہر حصے میں پھیل چکا ہے اور آپ کے معتقدین مریدین اور مرسلین افغانستان سے لے کر امریکہ تک پائے جاتے ہیں۔
نگہ بلند سخن دلنواز جاں پر سوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے
فقیر علامہ موصوف کا قدیمی نیاز مند ہے۔ ۱۹۸۸ میں ان کے رفیقِ جاں نثار، یارِ غارِ تورا و بورا، جناب خالد خواجہ کے طفیل قدم بوسی کی سعادت حاص ہوئی۔ جنابِ محترم نے جیبِ خاص سے پچاس کروڑ روپے طیب و حلال بطور جیب خرچ فقیر کو عنایت کیے۔ حکومتِ الہیہ قائم کرنے اور حکومتِ نسوانیہ کو غارت کرنے کی تلقین کی، کہ فسق و فجور کی اشاعت کار تھی۔
اگر ان بزرگان کی رہنمائی اور شفقت شاملِ حال نہ ہوتی تو فقیر راہِ شریعتِ پاک پر اس قدر ترقی نہ کر پاتا۔
ایک اور بزرگ جو اس خاکسار کے حال پر نظرِ عنایت کرتے ہیں حاجی فضل دین ہیں جن کا تکیہ اندرون ٹکسالی گیٹ میں نورِ شریعت پھیلانے کے لیے مشہور ہے۔ امت کے کونے کونے سے سائلین آپ کی درگاہ پر حاضر ہوتے ہیں اور اور اس چشمہِ ہدایت سے فیضیاب ہوتے ہیں۔ آپ تمام زائرین کو تناول کے لیے صالح اور نیک اطوار بکروں کے سری پائے [مع نانِ روغنی] پیش کرتے ہیں جن سے آنکھوں کو طراوت اور روح کو بالیدگی ملتی ہے اور دنیا اور آخرت میں درجات بلند ہوتے ہیں۔ امید ہے کہ یہ وفا شعار اور پر ایثار جانور روزِ قیامت مومنین اور مومنات کے لیے پُل صراط پہ سواری بنیں گےاور شفاعت اور بریت کا سامان ہوں گے۔
جزاکم اللہ احسن الجزا
انہی نیک خصال اور نیک سیرت مرحوم بکروں کی سنت میں میں نے اپنے بیانات میں مسلکِ بے سر و پا اختیار کیا ہے۔
ایک غلطی کا ازالہ:
عزت مآب،
آج کل بعض حلقوں میں یہ خبر گرم ہے کہ خاکسار کو ایک برگزیدہ ہستی نے فون کر کے جنت کی بشارت دی ہے۔ حضورِ انور، فدوی تمام احباب پر یہ واضح کر دینا چاہتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو بے حد گنہ گار اور فرو مایہ سمجھتا ہے اور ایسی قدر و منزلت کے قابل نہیں سمجھتا۔ تاہم کمترین آپ کے آگے یہ واضح کرنا چاہتا ہے کہ کچھ باتیں کہنے کی ہوتی ہیں اور کچھ کرنے کی۔ کچھ لکھنے کی اور کچھ پڑھ کے مٹا دینے کی۔
جو کہا تو ہنس کے اڑا دیا، جو لکھا تو پڑھ کے مٹا دیا
برادرِ محترم،
یہ دنیا عارضی ہے اور یہاں کا نفع نقصان بے معنی ہے۔ اصل امتحان وہ ہے جو روزِ قیامت اہلِ ایمان کو درپیش ہو گا۔ اس دنیا میں عدالت حکومت، سطوت و سلطنت، پیکجِ آئینی اور ترامیمِ قانونی کی کوئی اہمیت نہیں۔ اصل عدالت وہ ہے جو داورِ محشر کے حضور لگنے والی ہے۔ اسی لیے اس فقیر نے دنیاوی آلائشوں سے منہ پھیرا ہے اور ایک حقیر کٹیا جاہ و منصب سے دور، ذکر اور فکر کے لیے جاتی عمرہ میں بنائی ہے۔
جب دیکھ لیا ہر شخص یہاں ہرجائی ہے
اس شہر سے دور اک کٹیا ہم نے بنائی ہے
اور اس کٹیا کے ماتھے پر لکھوایا ہے
سب مایا ہے
آپ کا بھائی،
م ن ش،
عفی عنہ
پی ایل ایم [ن]
More articles by Hakim Hazik