غزوہِ ہند وچین
از: حکیم حاذق
عزیز نوجوانو،
تمہاری نسل وہ نسل ہے جو اسلام کے قلعے پاکستان کے دامنِ عافیت میں پل بڑھ کر جوان ہوئی ہے۔ لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ تمہارے دین کی سربلندی کی خاطر تمہارے سروں کی فصل کاٹی جائے۔
خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے
قبا چاہئے اس کو خونِ عرب سے
وہ وقت قریب آ پہنچا ہے، جب لال قلعے پر سبز ہلالی پرچم لہرائے گا۔ گلی کوچوں میں مذبح خانے قائم ہوں گے جہاں پر برگزیدہ، صالح اور پاکباز جلاد نوجوانانِ ملت کو کفارکے سر کاٹنے کی تعلیم دیں گے۔ ہنود اور یہود، مشرک اور ملحد، بدعتی اور رافضی، اشتراکی اور بے دین اسلام کی تلوار کے سامنے سر جھکانے پر مجبور ہوں گے۔
افراد کے ہاتھوں میں اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
میرے بچو،
جس طرح بامیان اور جہان آباد میں شرک کی نشانیوں کو مٹایا گیا اسی طرح پاک و ہند کے کونے کونے سے لات ومنات و سومنات کا نام و نشان مٹا دیا جائے گا۔ وہ وقت زیادہ دور نہیں جب سلاطینِ اسلامیہ کی عظمتِ رفتہ پھر سے قائم ہو گی۔ تم ہی میں سے وہ جانباز سامنے آئِیں گے جو ظہیر الدین بابر کی طرح کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کریں گے۔ تم ہی میں وہ جری پیدا ہوں گے جو فیروز شاہ تغلق کی طرح کفار کو آگ میں زندہ جلائیں گے۔ تم ہی میں سے وہ عالمگیر اٹھیں گے جو غیر مسلموں پر جزیہ عائد کریں گے اور موسیقی کو ہمیشہ کے لیے دفن کریں گے۔
میرے عزیزو،
وہ وقت قریب آ پہنچا ہے جب اسلامی بم کی چمک دمک اور لپک سے برصغیر کا گوشہ گوشہ منور ہو جائے گا۔ تمام دشمنانِ اسلام دھواں بن کر اڑ جائیں گے۔ ہیروشیما اور ناگاساکی کی پر تقدیس تاریخ دہلی، لکھنئو اور آگرہ میں دہرائی جائے گی۔ سرزمینِ ہند ہر قسم کی نباتاتی اور حیواناتی حیات سے پاک ہو کر سرزمینِ پاک میں بدل جائے گی۔ ریڈیو پاکستان دہلی سے مولانا عبدالعزیز بغیر برقع کے شہادت کا درس دیں گے اور اور پی ٹی وی بمبئی سےمولانا محمد اجمل قصاب منحرفینِ اسلام کے قتل کا حکم دیں گے۔
دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے
پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے
تعمیرِ خودی کر اثرِ آہِ رسا دیکھ
عنقریب من موہن سنگھ صاحب، پا بجولاں اور دست بستہ، خاک بر سر، پریشان زلف، شاہِ دمشق، خلیفۃ الاسلام جناب بشارالاسد، ایف آر سی ایس [ایڈنبرا] کے حضور میں پیش ہوں گے اور اپنی گمراہی کی سزا پائیں گے۔ کیمبرج میں ک��ر و ضلالت کی اقتصادیات پڑھانے پر معذرت کریں گے اور اسلامی اقتصادیات پر عمل پیرا ہوں گے۔
اس اقتصادیات میں ضروری ہے کہ ادارہِ پُر نورِ آئی ایم ایف سے گیارہ ارب ڈالر حلال و مباح قرضِ حسنہ لیا جائے جس سے ریاستہائے اسلامی امریکہ اور جمہوریِ اسلامی فرانس سے جنگی طیارے خریدے جائیں، تاکہ ہنود اور یہود بشمول صہیونی ہنود اور ہندو صہیون کو ان کی سازشوں کا دندان شکن جواب دیا جائے۔
میرے عزیزو،
تم پر یہ بھی واجب ہے کہ جناب ہُو جِن تائو کی مشکیں کس کے انہیں بھی دربارِ دمشق میں پیش کرو۔ لیکن اسلام اور جے ایف تھنڈر کی سربلندی کی خاطر فی الوقت انہیں رعایت دینا مناسب ہے۔
بعض گمراہ اور مغرب زدہ این جی اوز لوگوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے لیے کوشش کر رہی ہیں۔ اے غیور نوجوانو، تمہارے لیے ضروری ہے کہ حرمتِ دین کی حفاظت کے لیے ان کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائواور ان کے مذموم عزائم کو خاک میں ملا دو۔ ان کو بتا دو کہ ناموسِ دین اور ناموسِ ایف سولہ جہاز کی خاطر ہم کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
اگر کسی صہیونی قوت نے ہمیں بچوں کی شرحِ اموات، پرائمری تعلیم اور فراہمیِ روزگار جیسے فسق و فجور میں الجھانے کی کوشش کی یا ہمارے مقدس شعائر یعنی گلا کاٹنے، عالمی جہاد، میراج طیاروں اور آگسٹا آبدوزوں [مع دس فیصد کمشن] پر بری نگاہ ڈالی تو ہم اس پر فدائین کے لشکرِ جرار، لوڈ شیڈنگ، آئی ای ڈی اور آئی ایس پی آر کے ذریعے حملہ آور ہوں گے اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ق لیگ نے ہزارہ اور پاکستان کی جری فضائیہ نے وادیِ تراہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے۔ یا گوہر ایوب صاحب نے کراچی اور ان کے والد صاحب نے پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔
ہاتھ ہے اللہ کا بندہِ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں کار کشا کار ساز
میرے عزیزو،
اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ ہم سب مغربی تہذیب کی تباہی پر کمر باندھ لیں۔ علامہ مرحوم نے فرمایا تھا کہ:
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہو گا
ہمارا فرض ہے کہ اگر مغربی تہذیب اس کارِ خیر کو انجام دینے میں پس و پیش سے کام لے تو اس کی مدد کے لیے اس پر حملہ آور ہوں۔ مغرب کا نظامِ سرمایہ داری اور اشتراکیت، آمریت اور جمہوریت، سود خواری اور منافع خوری سب فساد، بغاوت اور فتنہ پر مبنی ہیں۔ جبکہ ہمارا نظامِ جکومت ننانوے فیصد ووٹ، شرعی ریفرینڈم، لاٹھی چارج، آنسو گیس اور نادیدہ، معصوم، معتبر اور مقرب فرشتوں کے ووٹ مبنی ہے۔
ہم نے دنیا پر ثابت کر دیا ہے کہ اشتراکیت اور سرمایہ داری دونوں ناکام ہو چکے ہیں۔ جب کہ امتِ مسلمہ کا معاشی نظام جو زکوٰۃ پر مبنی ہے معاشرے میں عدل اور انصاف پیدا کرتا ہے۔ اسی لیے ہم آئی ایم ایف، دوستانِ جمہوری پاکستان، ایشیائی ترقیاتی بینک اور اسلامی جمہوریہ چین کی طرف سے دی گئی زکوٰۃ کی حمایت کرتے ہیں اور اسے اسلام کا رکن سمجھتے ہیں۔ یہ وہ رزقِ حلال ہے جس کے کھانے سے جسمانی اور روحانی ترقی حاصل ہوتی ہے۔ نوجوانوں میں عقابی روح اور اسلامی حمیت پیدا ہوتی ہے۔ میرے بچو یہ زکوٰۃ مفرحِ قلب ہے اور ضعفِ معدہ و جگر میں افاقہ کرتی ہے۔ تم پر لازم ہے کہ اسے جزوِ بدن بنائو مغربی تعلیم پر خاک ڈالو مغربی تہذیب کا بہروپ اتار پھینکو۔ اور پاکستان کے اصلی دارالحکومت دہلی کی طرف پیش قدمی کرو۔
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
More articles by Hakim Hazik